بچوں کی شیر خواری کا زمانہ اگرچہ نہایت اہم قرار دیا جاتا ہے جو کہ درست بھی ہے تاہم یہ عرصہ اس کی صحت کے حوالے سے ہی اہم ہوتا ہے لیکن جب بچہ چار سال کی لگ بھگ عمر کو پہنچتا ہے تو یہاں سے اس کے بچپن کی وہ حد شروع ہوتی ہے جہاں سے وہ دوسروں کے رویوں کے اثرات قبول کرنا شروع کردیتا ہے۔ یہ عرصہ اس لیے اہم ترین ہوتا ہے کہ اس کے اثرات بچے کی پوری زندگی پر محیط ہوتے ہیں۔
بچہ جب سے ہوش سنبھالتا ہے وہ دوسروں کے رویوں کے اثرات قبول کرنا شروع کردیتا ہے۔ یہ اثرات چاہے مثبت ہوں یا منفی‘ اس کے ذن کو انہی رویوں کے سانچے میں ڈھالنا شروع کردیتے ہیں۔ جب وہ بچپن کی حدود سے لڑکپن اور پھر جوانی میں داخل ہوتا ہے تو ہوش سنبھالنے سے لے کر سکول کی ابتدائی کلاسوں تک کے زمانے میں وہ جو کچھ دیکھتا‘ سنتا اور سمجھتا رہا ہے وہ اس کی پوری زندگی پر چھاچکا ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جب بچہ ہوش سنبھالنا شروع کرے تو اس کی تربیت کا آغاز اس طرح کیا جائے کہ جب وہ عملی زندگی میں داخل ہو تو ایک نفیس اور شائستہ انسان کہلائے۔
بچوں کی تریبت کیسے شروع کی جائے: جب بچہ بولنے کا آغاز کرے تو ماں‘ باپ سمیت گھر کے تمام افراد کو چاہیے کہ اس کے ساتھ کھیلتے ہوئے چہرے پر نرمی اور مسکراہٹ رکھیں اور توتلے منہ سے ایسے جملے ادا کریں جو کہ نہایت شائستہ ہوں۔ اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب بچہ بولنے کا آغاز کرتا ہے تو وہ کچھ نہیں سمجھتا ہے۔ ماہرین دماغ و نفسیات کہتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں۔ بچہ اس وقت بولنے پر تو قدرت نہیں رکھتا تاہم اس کا دماغ بھرپور طریقے سے الفاظوں اور آنکھوں کے سامنے پیش آنے والے رویوں و مناظر کو محسوس کرکے انہیں اپنے دماغ کی یادداشت (میموری) میں محفوظ کرنے لگتا ہے پھر جب یہی بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس کے دماغ کے نہاں خانوں میں موجود یہ میموری اسے ان رویوں کے تابع ہونے کا سگنل بھی دیتی ہے۔ اگرچہ یہ سگنل کمزور ہوتے ہیں لیکن اس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ بچے کی زندگی کے ان ابتدائی ایام اور اس دوران اس سے روا رکھے گئے سلوک کا اس کی آئندہ زندگی پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا۔ اس تناظر میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ بچے کے سامنے ایسی باتیں نہ کی جائیں جن میں غیرمہذب جملوں کا استعمال ہوتا ہو یا لڑائی جھگڑے کا ماحول بنتا ہو۔ یہ بنیادی چیزیں ہیں اور اس سے بچے کی شخصیت کی بنیاد پڑتی ہے لہٰذا جب تک والدین اور گھر کے بڑے اسے اچھی بنیاد فراہم نہیں کریں گے تب تک اس کی مضبوط شخصیت‘ محفوظ مستقبل اور کامیاب زندگی کا خواب دیکھنا بھی غلط ہوگا۔
خاندانی ماحول اور قرابت داریاں: خاندانوں میں اکثر و بیشتر رنجشیں پائی جاتی ہیں اور کوئی ایک آدھ ہی خاندان ایسا ہوگا جو ان رنجشوں سے پاک ہوگا لیکن جب بات بچے کی تربیت کی ہو تو یہ چیزیں بہت اہم ہوجاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ گھر کے بڑے یا والدین چھوٹے بچوں کے سامنے خاندانی رنجشوں یا لڑائی جھگڑوں کا تذکرہ نہ کریں اور بچوں کے سامنے اس طرح کے معاملات میں صلح و صفائی بھی نہ کریں۔ اس طرح بچے کو رنجشوں‘ طعنوں اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنےکی ترغیب ملتی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن گھرانوں میں خاندانی رنجشیں عام ہوں ان کے بچوں پر اس صورتحال کا نفسیاتی اثر پڑتا ہے اور وہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ صورتحال ان کے رویوں کو بھی تلخ کردیتی ہے اور پھر وہ ساری زندگی تلخ رویوں کا مظاہرہ رکے نہ صرف دوسروں کی زندگیاں بھی تلخ کردیتے ہیں بلکہ خود بھی حقیقی خوشی کیلئے ترستے رہتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کا انتخاب: والدین اور گھر کے بعد بچہ جس چیز کا سب سے زیادہ اثر قبول کرتا ہے وہ ہیں اساتذہ تعلیمی ادارے کا ماحول اور اسکول کے ساتھی۔جب بچے کو چوتھے‘ پانچویں سال کی عمر میں اسکول میں داخل کروایا جاتا ہے تو اس وقت اس کا ذہن گھر سے باہر کے معاملات کو سمجھنے کیلئے بالکل کورا ہوتا ہے۔ یہ بچے کی زندگی کا پہلا موقع ہوتا ہے جب اسے گھر سےباہر رہ کر دنیاداری سیکھنے‘ غیر لوگوں کے درمیان رہ کر سماجی زندگی بسر کرنے‘ ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجھنے اور دکھ درد میں کام آنے کی تربیت شروع ہوتی ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بچے کو سکول میں داخل کروانے کے بعد ان کا کام ختم ہوگیا ہے۔ یہ سوچ بہت ہی غلط ہے۔ جب آپ بچے کو سکول میں داخل کروائیں تو سب سے پہلےیہ معلوم کریں کہ مجموعی طور پر وہاں کا ماحول کیسا ہے اور اساتذہ کا اپنے شاگردوں سے رویہ کس طرح کا ہے؟ والدین اور گھروالوں کے بعد بچہ جس شخصیت کا سب سے زیادہ اثر قبول کرتا ہے وہ استاد ہوتا ہے اور دوسروں کے ساتھ سماجی رویوں کی استواری کی جو تربیت وہ حاصل کرتا ہے وہ بچے کو اپنے اسکول کےس اتھیوں سےملتی ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ آپ اپنے بچے کی مضبوط شخصیت کیلئے اسے نہ صرف اچھے سکول میں داخل کروائیں بلکہ ہر ہفتہ پندرہ دن بعد سکول جاکر اس کے اساتذہ سے بھی ملیں اور اپنے بچے کی تعلیمی لیاقت اور اس کے مجموعی رویوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں تاکہ اگر سکول کے کسی بدتمیز ساتھی کی وجہ سے اس کے بھی رویے گستاخانہ ہورہے ہیں تو انہیں جڑپکڑنے سے پہلےکاٹا جاسکے۔
گھر سےباہر کاماحول: گھر اور سکول میں بچہ پابندی کا شکار رہتا ہے اسے یہ علم ہوتا ہے کہ اس کے رویوں کی نگرانی کی جارہی ہے لیکن سکول سے گھر لوٹنے کےبعد اس کی صحت کیلئے ضروری ہے کہ وہ باہر کسی گراؤنڈ میں جاکر کچھ دیر تک کھیلے کودے۔ جسمانی صحت کیلئے یہ بہت مفید بات ہے لیکن اگرآپ کے محلے کا ماحول اچھانہ ہو تو بہتر ہے کہ بچے کو ایسے ماحول میں زیادہ وقت نہ گزارنےدیں کیونکہ گھر اور سکول کے مقابلے میں محلے اور کھیل کے میدان کا ماحول نسبتاً آزادانہ ہوتا ہے جو اگر خراب ہو تو بچہ بگڑ بھی سکتا ہے۔ اس عرصے میں ضروری ہے کہ آپ اسے گھر سے باہر نہ نکلنے کی بندش لگانے کے بجائے اس کے رویوں پرکڑی نظریں رکھیں اور ہوسکے تو ایسا ماحول گھر میں ہی پیدا کردیں کہ بچہ بہت زیادہ دیر تک گھر سے باہر کھیل کود میں وقت نہ گزارے۔نیز اس عرصے میں بچے کی نفسیاتی انداز میں بھی اصلاح جاری رکھیں۔ اسے چھوٹی چھوٹی اصلاحی کہانیاں سنائیں جس سے بچے کے اندر اچھے اور برے میں تمیز پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو اور وہ خود برے ماحول سے کنارہ کشی کرنا سیکھے۔
آج کے دور میں ٹی وی اور انٹرنیٹ کے نام پر تفریح کا استعمال کرنا نہایت غیرمناسب ہے۔ ان ٹی وی چینلز کے پروگرام سےبچے کا ذہن پراگندہ ہوسکتا ہے۔
ہمیں امید ہے کہ اب آپ کیلئے بچے کی تربیت کچھ زیادہ مسائل کا سبب نہیں بنے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں